پاکستان کا آئین اپنی موجودہ حالت میں صرف اشرافیہ کو تحفظ دیتا ہے اور کمزور کا استحصال کرتا ہے ایک چھوٹا سا مگر اہم تھریڈ لکھ کے آپکو اپنا نقطہ نظر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں مثال کے طور پہ آئین میں دئے گئے بنیادی حقوق کو ہی دیکھ لیں بولنے کی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے آئین کا آرٹیکل 19 اسکی یقین دہانی کرواتا ہے مگر باریک واردات بھی اسی آرٹیکل میں ڈالی گئی ہے
اگر اس آرٹیکل کو پڑھیں تو بڑا اچھا لگتا ہے جہاں تک یہ لکھا ہے کہ بولنے کی آزادی ہے رائے کے اظہار کی آزادی ہے صحافتی آزادیاں ہیں مگر جہاں اس شق کو لفظ قانون کے ڈائرے میں رہتے ہوئے پہ ختم ہوجانا چاہیئے تھا وہاں یہ آرٹیکل باریک واردات ڈال کے آپ سے بولنے اور رائے کے اظہار کی آزادی فوری چھین لیتا ہے کیونکہ آگے جو کچھ بھی لکھا ہے آپ جب بھی کچھ ایسا بولیں گے جو طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو پسند نہیں آے گا تو وہ ان میں سے کسی کیٹیگری میں ڈال کے آپکا منہ بندکردیں گے جیسے اسلام کی سربلندی کے بعد سے باریک واردات شروع ہوتی ہے، ملکی سالمیت، سیکیورٹی، دفاع، دوست ممالک سے تعلقات اور توہین عدالت۔ یعنی یہ سب قدغنیں ہیں اب اگر آپکے ذہن میں سوال پیدا ہورہا ہے کہ یہ سب تو بلکل جائز قدغنیں ہیں تو میں آپکو سمجھاتا ہوں کہ باریک واردات کیا ہے۔ آئین بنیادی طور پہ عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہے عوام ٹیکس دیتی ہے بدلے میں ریاست عوام کی حفاظت بھی کرتی ہے اور اسے بنیادی حقوق کی گارنٹی دیتی ہے جیسے کے بولنے کی آزادی اظہار کی آزادی سیاست کرنے کی آزادی احتجاج کرنے کی آزادی وغیرہ مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ سب آزادیاں آئین میں یعنی عوام سے کئے گئے معاہدے میں کیوں لکھی ہیں؟ اور عوام کو کس کے سامنے بولنے کی آزادی چاہیئے؟ تو قارئین عوام کو یہ آزادی ریاست کے سامنے بولنے کیلئے چاہیئے ہوتی ہے جب ریاست معاہدے کی خلاف ورزی کرے بنیادی حقوق کو روندے یا آپکو ریاست کی پالیسی پہ اعتراض ہو تو آپ کھل کے اسکا اظہار کرسکیں آپ اس ریاست کے آزاد شہری ہیں ریاست کے غلام نہیں لیکن جب آئین کی شق کو بغور پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ریاست نے جو قدغنیں لگائی ہیں آزادی اظہار اور آزادی رائے پہ اسکے بعد آپ ریاست کے اوپر کسی قسم کی تنقید کر ہی نہیں سکتے ورنہ ان میں سے کسی بھی ایک اعتراض کو بنیاد بنا کے آپکو جیل میں ڈال دیا جائے گا یہاں تک کے ملک دشمن اور غدار قرار دے دیا جائے گا جو آپ 76 سال سے اپنے سامنے ہوتا دیکھ بھی رہے ہیں اب آپ فریڈم آف ایسوسی ایشن کو ہی دیکھ لیں شق 17 میں آزادی دی گئی ہے لیکن صرف قانون کی طرف سے عائد پابندی لکھنے کے بجائے آگے پھر وہی باریک واردات پاکستان کی آزادی سالمیت اور پبلک آرڈر اور اخلاقیات جیسی چیزوں کی قدغن ہے اب اگر کسی ملک میں آئین اور قانون کو فالو کیا جائے تو مجھے اس پہ کوئی اعتراض نہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں آئین کو روز روندا جاتا ہے ایسی قدغنیں صرف ریاست کے ہاتھ میں آپکی آواز دبانے اور آپکا استحصال کرنے کا ہتھیار ہوتی ہیں اور ہم روزانہ اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب ہوتا دیکھ رہے ہیں خاص طور پہ پچھلے دو سال سے۔ اب آپ کے ذہن میں اگر یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ سب کو کچھ بھی بولنے کی آزادی تو نہیں دی جاسکتی تو پھر اسکا حل کیا ہے؟ آئیے اسکا حل تلاش کرتے ہیں جہاں تک مذہب کی بات ہے ہمارے پاس آئین کی شق 95 ہے جسکی ذیلی شقیں ہر قسم کی مذہبی توہین کے آگے مضبوط قلعہ ہیں اسلئے بولنے کی آزادی سے مذہب کو کوئی خطرہ نہیں تو پھر بولنے کی آزادی سے کسے خطرہ ہے جو اتنی قدغنیں ہیں؟ عوام کے بولنے کی آزادی سے صرف انہیں خطرہ ہے جو ملک چلاتے ہیں اور نہیں چاہتے ان سے کسی قسم کا سوال کیا جائے لیکن پاکستان کو جو بھی مسائل لاحق ہیں اگر ہم نے ان سے نکلنا ہے تو بولنے کی مکمل آزادی ہونا سب سے ضروری ہے ایک سوال ذہن میں یہ بھی آتا ہے کہ اگر بولنے کی مکمل آزادی دے دی جائے تو لوگوں کی پگڑیاں سر بازار اچھالی جائیں گی کسی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی اسکا بہت آسان حل ہے جس طرح برطانیہ میں ہتک عزت کا سخت قانون ہے اور کیس بھی ایک سال کے اندر انجام کو پہنچ جاتا ہے اور اتنا مالی نقصان ہوتا ہے ہتک کرنے والے کو کہ وہ سڑک پہ آجاتا ہے ایسے ہی سخت قانون پاکستان میں بنانے پڑیں گے تاکہ ذاتی حملے اور بغیر ثبوت کے لوگوں پہ الزام نہ لگائے جاسکیں ہرجانہ اتنا زیادہ ہو کہ کوئی ایسا سوچے بھی نہ اور ہرجانہ نہ دینے کی صورت میں جائیداد فروخت کرکے رقم وصول کی جائے اور جسکی ہتک ہوئی اسے ادا کی جائے لیکن یہ قانون صرف عام عوام کیلئے ہو حکومت اور کسی ادارے کی ہتک عزت کے کسی قانون کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ہر ادارہ عوام کو جوابدہ ہے اور ہر ادارے کو کارکردگی دکھا کے عوام سے عزت کروانی پڑے گی توہین عدالت کا قانون ختم کرنا پڑے گا ورنہ جسٹس منیر پیدا ہوتے رہیں گے یہاں پہ ہی ختم کروں گا کہ پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے ان سے اگر نکلنا ہے تو عوام کو بولنے اور اظہار کی غیر مشروط آزادی دینی پڑے گی ورنہ طاقت ور ہمیشہ قانون اور احتساب سے اوپر رہے گا اور کمزور ہمیشہ پستا رہے گا
پہ ختم